• When Every Man lives without "LAW" Every Man lives without "FREEDOM"
  • 0300-8220365 , 0313-1234169 , 0334-2629763, 0333-3653467
  • Suite #. 314, The Plaza, Plot # G-7, Block # 9, Near Do Talwar, Clifton-Karachi.


سندھ میں انتہاپسندی جاوید قاضی اتوار 13 اکتوبر 2024

تاریخ ایک پہیہ ہے جو حرکت میں رہتا ہے اور اس حرکت میں زماں حال ، زماں ماضی بن جاتا ہے جو آج ہے وہ کل بن جاتا ہے اور جو کل ہوگا وہ بھی ایک دن ماضی کا حصہ بن جاتا ہے۔ایسے ہی گزرنا ہے سو گزرے،بس ایک عکس باقی رہ جاتا ہے۔تاریخ ایک فرد کی بھی ہوتی ہے اور اقوام کی بھی۔ اس دھرتی پر انسان نے جو دنیا بنائی ہے وہ بھی تاریخ ہے۔انسانوں کی تاریخ ان کے وجود سے بنتی ہے۔ارتقاء کی مسافتیںاسی تاریخ کی سخن ہیں۔فیض کی ان سطروں کی مانند۔

یہ سخن جو ہم نے رقم کیے سب ورق ہیں تیری یاد کے

کوئی لمحہ صبح فراق کا،کوئی شام ہجر کی مدتیں

یہ دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے اور اسی تیزی سے تاریخ بھی۔پہلے جو حقائق صدیوں میں تبدیل ہوتے تھے،وہ اب سالوں میں ہونے لگے ہیں۔ دور حاضر میں فلسفے کے حوالے سے یوول ہراری اپنا مقام رکھتے ہیں۔وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی پہلی ترتیب یا پہلی جنریشن موجود ہے جس کو ہم دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔اس سائنس و ٹیکنالوجی میں بڑی تیزی سے بدلاؤ آرہے ہیں اور اس بدلاؤ میں دنیا کی کایا تبدیل ہو نی ہے۔انسانوں کے حکمرانی جو اس دنیا پر آج سے دس ہزار سال پہلے قائم ہوئی تھی اب اس انسانی حکمرانی کا خاتمہ ہونا ہے،پھر حاکمیت قائم ہو نی ہے اس مصنوعی ذہانت کی۔

مجھے اس بات کا بڑا افسوس ہے کہ اس بدلتی دنیا اور اس کی تیزی کو اردو زبان میں کوئی رقم نہیں کر پا رہا ہے۔کیا ہماری ترجیحات اور ہمارے موضوع مختلف ہیں یا پھر ہم آج بھی اسی بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں،اگر ہم اردو زبان کو عہد حاضر کی ترجیحات کے پیرائے میں نہیں ڈھالیں گے تو نقصان سراسر ہمارا ہی ہوگا۔ جس طرح سے ہم اردو زبان میں انگریزی اصطلاحات کی غلط تشریح کرتے ہیں جیسا کہ انگریزی زبان کے لفظ ’’سیکولر‘‘ کی تشریح جو ہم نے اردو میں کی وہ ہے ’لادینیت ‘ یا پھر ATHEISM جب کہ اس کے حقیقی معانی انگریزی لغت میں یہ ہے کہ’’ ریاست اور مذہب الگ الگ ہے‘‘اور خصوصاً یہ اصطلاح قانونی اور آئینی زاویے کی ہے اور اس کی بھرپور تشریح یہ ہے کہ ریاست کسی خاص مذہب ، نسل یا پھر زبان کی نہیں ہے بلکہ ریاست تمام مذاہب، تمام رنگ ونسل اور زبانوں کے درمیان بھائی چارے کو یقینی بناتی ہے۔

ایک ریاست کا مقصد ہی یہی ہے جیساکہ ہمارے آئین کا آرٹیکل بیس کہتا ہے۔تاریخ اپنے ابواب میں بڑی بے رحم ہے،جو اقوام یا ریاستیں بدلتے حقائق کو تسلیم نہیں کرتیں، بدلتے وقت کے ساتھ تبدیلی نہیں لاتیں، تاریخ انکو کہیںبلیک ہول میں پھینک دیتی ہے۔

ہمارے سندھ کی تاریخ ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ سندھ میں ہر رنگ و نسل ، ہر مذہب و فرقے کو اپنی عبادت گاہوں میں جانے اور عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہے اور پھر وہ جانیں اور ان کا خدا جانے۔کہیں ایسا نہیں جیسا کہ ہمارے سندھ کا محور ہمارا بھٹائی ہے۔شاہ کی شاعری اور ان کے افکار سندھ کا بیانیہ ہیں۔سندھ کے نوجوان چھوٹی چھوٹی محفلوں اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھٹائی کے اشعار سنا کر اپنا مؤقف سمجھائیں گے۔مگر یہ ہماری بد نصیبی ہے اتنی امیر ثقافت کا مالک یہ صوبہ معاشی طور پر مضبوط نہ ہوسکا، معاشی طور پر کوئی تبدیلی نہ لا سکا۔

سندھ کے تمام بڑے شہر کراچی، حیدرآباد، سکھر اور شکار پور یہ تمام متوسط طبقے سے تھے اورہندو خاندانوں کو آزادی کے بعد یہاں سے کوچ کرنا پڑا۔ ان کے جانے بعد سندھ کی اشرافیہ صرف زرعی وڈیروں ، گزی نشینوں اور جاگیرداروں تک ہی محدود رہی۔سوچ کے اعتبار سے یہ وڈیرے صوفی اقدار کے حامی تو ہیں مگر دہقانوں کے معاملے اور ترقی کے منحرف ہیں۔ان فرسودہ روایات کے حامی ہیں جہاں کسان اور غریب کا استحصال ہو۔

قصہ مختصر ایک ماہ پہلے پولیس کی کسٹڈی میں رہنے والا ڈاکٹر شاہنواز بلآخر قتل کردیا گیا۔اس جرم کی سزا اور ٹرائل دونوں کا طریقہ ہمارے آئین و قانون میں موجود ہے۔ اب مذہب انتہا پسندوں کے لیے ایک ایسا ہتھیار بن گیا ہے جس کو انھوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ڈاکٹر شاہنواز کے جرم کی آزادانہ تحقیقات کرائی جاتی ،کم از کم تحقیق ضرور ہونی چاہیے تھی۔اس کا یہ حق کسی اور نے نہیں بلکہ قانون کے رکھوالوں نے ہی چھینا۔

ڈاکٹر عمر کوٹ، تھرپارکر کی اکثریت اقلیتوں سے تعلق رکھتی ہے اور زیادہ تر وہ بھیل، کولہی، مینگھواڑ قبائل سے ہیں۔اس قتل سے ان لوگوں پر ایک دہشت طاری کردی گئی ہے کہ وہ یہاں غیر محفوظ ہیں ۔سوال یہ ہے پولیس نے اپنی کسٹڈی میں مبینہ ملزم کوکیوں مارا؟اس سوال کو لے کر سندھ حکومت نے پولیس افسران پر مبنی ایک کمیشن بنایا کہ اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کی جائے۔ سندھ حکومت نے ڈی آئی جی، ایس ایس پی اور ایس ایچ او کو بر طرف کرکے ، ان پر اور مذہبی شخص پر ایف آئی آر کاٹنے کا حکم دے دیا ہے لیکن ابھی تک گرفتاریاں عمل میں نہیں آئیں۔

ڈی آئی جی پر ایف آئی کٹی ہے ، اسے ہار پہنانے والا اسی علاقے کا پیپلز پارٹی کا ایم این اے تھا جن کے خلاف اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔گھوٹکی ضلع کے ایک پیر صاحب نے اس ہتھیار کو دو کروڑ کی قیمت میں وہ خریدنے کا اعلان کررکھا ہے جس کے ذریعے پولیس کسٹڈی میں ملزم کو قتل کیا گیا تھا، اس کے خلاف اب تک کوئی ایف آئی آر نہیں کٹی ہے اور نہ ہی سندھ حکومت نے اس بات کا نوٹس لیا ہے۔قانون کی تشریح کرنا عدالتوں کا کام ہے نہ کہ کسی فرد واحد یا پھر کسی تنظیم کا۔ایسے عمل سے خود ریاست کی ساخت کو نقصان پہنچتا ہے۔

مخدوم بلاول ہمارے سندھ کا بہت بڑا نام ہے۔چودہویں صدی میں جب سندھ پر ارغونوں اور ترخانوں نے حملہ کیا تو مخدوم بلاول کو سنگین الزامات کے تحت تیل کی کڑاہی میں پھینک دیا گیا کہ لوگوں میں دہشت پھیلے۔تاریخ ایسی غاصبوں کا حساب خود کرتی ہے ، آج مخدوم بلاول کا کیا مقام ہے اور غاصبوں کا کیا انجام ہے۔

ہمارے صوفیا کی تحریک ہزار سال کی روایت رکھتی ہیں۔تاریخ ایسے ہی رواں رہے گی۔یہ وقت بھی گزر جائے گا جیسے ترخانوں اور ارغونوں کا گزر گیا۔جس نے حق اور سچ کا ساتھ نہیں دیا، وہ تاریخ کے کوڑے دانوں میں گرا۔



ہمارا بلوچستان

پاکستان کی تاریخ ایسی ہی سوچ کا بٹوارہ ہے۔ ایک ہی چیز ہوتی ہے جس کی تشریح سول جمہوری قیادت کچھ اورکرتی ہے اور فوجی قیادت کچھ اور۔ اس بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے ذرا ان سفاک اور بیمار لوگوں کی بات کرتے چلیں جنھوں نے حال ہی میں نہتے شہریوں کو چن چن کر بسوں سے نکالا اور ان کے شناختی کارڈز دیکھے اور ان کو بے دردی سے قتل کیا۔یہ قاتل جو اپنے آپ کو بلوچ قوم پرست کہتے ہیں، شاید یہ خود بلوچ نہیں ہیں بلکہ بلوچوں کے دشمن ہیں۔ بلوچوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہورہی ہیں، غیربلوچوں کو قتل کرنے والے گینگز اس کیس کی تاثیرکو زائل کر رہے ہیں، ان حرکات سے بلوچ اپنا قومی مقدمہ ہارے رہے ہیں، جیتے نہیں رہے۔



Man in Karachi sentenced to 80 lashes for denying child’s paternity

KARACHI: A sessions court has sentenced a man to 80 lashes for refusing to admit paternity of his child and falsely accusing his ex-wife of adultery.

Additional District and Sessions Judge (Malir) Shehnaz Bohyo convicted Fareed Qadir under Section 7(1) of the Offence of Qazf (Enforcement Of Hadd) Ordinance, 1979 for disowning his legal child and making false accusations against his ex-wife.

The said section of the ordinance reads: “Whoever commits qazf liable to hadd shall be punished with whipping numbering eighty stripes.”

The judge wrote in his verdict: “It is crystal clear that the accused is a liar and had fabricated an allegation of Qazf upon the complainant regarding illegitimacy of her daughter… Thus, he is convicted and sentenced to 80 stripes each under section 7(1) of the Qazf Ordinance, 1979.”
The court ruled that after the conviction, his evidence shall not be admissible in any court of law following the confirmation of the conviction from the Federal Shariat Court.

Flogging punishment awarded under Qazf Ordinance

“As the accused is sentenced to whipping only… he shall remain on bail, provided that he agrees to appear at the time and place designated by this court for the execution of the punishment of whipping, following the confirmation of the conviction and sentence by the court of appeal, and submits a bail bond in the sum of Rs100,000,” said the verdict.

The convict’s ex-wife had filed a complaint in court and stated that she got married in February 2015 and they lived together for one month. In December 2015, she gave birth to a baby girl. However, her ex-husband failed to provide maintenance or take her back to his home. When she moved a family court the judge rendered a decree in her favour and directed the convict to provide maintenance for his daughter and former wife.

However, the husband submitted two applications in court during the proceedings of the execution application, requesting a DNA test for the baby girl and disowning his daughter. These applications were subsequently withdrawn by the convict.

However, the complainant filed an application under Sections 200, 203-B of the criminal procedure code (CrPC) read with Sections 3, 5, 7, and 11 of the Qazf Ordinance, 1979, before the district and sessions court (Malir), seeking legal remedy against her ex-husband for levelling serious allegations against her.

During the trial, the accused denied allegations regarding his ex-wife, stating that she had only lived with him for six hours after their marriage and then left the home and never returned.

However, the court noted that the accused neither testified under oath nor produced any witnesses to support his claims, adding that the defence also failed to bring any evidence regarding the accused making an apology or filing applications over a misunderstanding.

The court also highlighted that the accused in his recorded statement under Section 342 of the CrPC admitted that a baby girl was his legitimate daughter.

Prosecutor Saira Bano told Dawn that she did not witness any convictions of flogging under Section 7 of the Qafz Ordinance during her 14 years of service as a lawyer.

She explained that the implementation of the punishment of 80 lashes is subject to confirmation or otherwise by the court of appeal.

She believed that the recent conviction could be the first instance of corporal punishment in many decades.



بھٹو کیس اور وفاق

بھٹو کیس اور وفاق

ہم مل آئے اپنے آپ سے! یہ بھٹو کیس نہ تھا ، یہ ہم تھے۔ہم اس راہ سے نہ گزرتے تو ادھورے رہ جاتے اور اب جو گزر رہے ہیں تو پھر بھی تشنگی ہے۔

اگر کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیسے کرے۔کوئی شکوہ تھوڑی ہے جو کہہ دینے سے کم ہوجائے گا۔کئی آئینی و قانونی نکتے اور پیچیدگیاں ہیں جن کے جواب ملنے ہیں، جب یہ مکمل فیصلہ آئے گا۔ سپریم کورٹ کے جس قانونی دائرہ اختیار میں اس کیس کی سنوائیاں ہوئی ہیں، وہ مشاورتی دائرہ اختیار کی Jurisdiction ہے۔ فیض کے ان اشعار کی مانند یہ ایک قرضہ تھا۔

ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے

ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

کوئی دکھ کا مداوا تھا مرہم نہ تھا، تنکے کا ہی سہی آسرا تھا، منزل نہ تھی چراغ نہ تھا۔پورے شواہدات اور ریکارڈ دوبارہ کھلا نہیں کیونکہ Reappraisal دائرہ اختیار میں یہ ممکن نہ تھا۔اگر اس کیس کو  miscarriage of justice کے مشاورتی دائرہ اختیار میں کھولا جاتا تو وہ Jurisdiction ہمارے آئین میں وضع نہیں ہے اور ہو بھی تو سپریم کورٹ کا فیصلہ چیلنج نہیں ہو سکتا کہ یہ فیصلہ حرف آخر ہے، اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ حرفِ آخر نہ بنے تو اس ملک کا سسٹم ہی بیٹھ جاتا۔

یہ حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ اپنے دائرہ اختیار کا تعین خود کرسکتی ہے اور سوموٹو جیسے فیصلے لے سکتی ہے۔اگر سپریم کورٹ کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو ماضی میں کس قدر بے دردی سے اس دائرہ اختیار کا استعمال ہوا۔اس دائرہ اختیار کے اندر کتنے بڑے فیصلے کیے گئے، نا انصافیاں برپا کی گئیں۔2013 میں صدر زرداری نے بھٹوکیس کا ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔اب کہیں جاکر امید کی کرن جاگی، اب کہیں جاکر وہ وقت آیا کہ اب بھٹو کو انصاف ملے گا۔بھٹو کا کیس ایک ایسا قتل جو کسی اور نے نہیں بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے ججز نے خود کیا تھا، ایک آمر کی خوشنودی کی خاطر۔

 

 

اس کیس کا دوبارہ کھولنا ناممکن سی بات تھی۔بات یہ نہیں کہ بھٹو کے ساتھ نا انصافی ہوئی لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیس اگر سپریم کورٹ کی آخری مہر لگنے بعد یہ کیس کھلا تو ایسے کئی غلط فیصلے ہیں ، نا انصافیاں ہیں، وہ کیس بھی کھولنے پڑیں گے ، اگر ایسا ہوا تو اعلیٰ عدالت کی ساخت اور حرفِ آخر ہونے کے سوال کا کیا جواب ہوگا۔

 

 

یہ سوال صرف سپریم کورٹ کی ساخت کا نہیں بلکہ پاکستان کے تمام عدالتی نظام کا تھا،اگر بھٹو کو انصاف نہ ملا تو وفاق کمزور ہ جاتاہے۔نظریہ ضرورت سے لے کر جسٹس چوہدری افتخار کے زمانے تک جو سو موٹو لیے گئے ان کی بات تو الگ مگر ایک سمت تھی جو اعلیٰ عدالت نے طے کرنی تھی، وہ سمت سپریم کورٹ نے عاصمہ جہانگیر کے کیس میں درست کرنے کی کوشش کی، مگر پھر سے وہ زخم تازہ ہوئے، پھر جسٹس ثاقب نثار نکل پڑے ڈیم بنانے کے لیے۔ہر روز کسی نہ کسی مسئلے پر سوموٹو لیے گئے۔

 

 

اب سپریم کورٹ کا اعتراف کرنا بڑی بات ہے کہ ان سے غلطی سرزرد ہوئی۔جو بھی ہوا لیکن یہ بات بڑی ہے کہ ان چار ججوں کے چہروں سے نقاب اترا اور ساتھ لاہور ہائی کورٹ کاجج بھی بے نقاب ہوا۔اب رہ گئے وہ تین جج جنھوں نے اس ظلم کا ساتھ نہ دیا۔یہ بات نہ چھوٹے صوبوں کی ہے نہ ہی پنجاب کی ، یہ مخصوص سوچ اور مائنڈ سیٹ ہے ۔اسی کی بنیاد پر ہم خود ہی چھوٹے اور خود ہی بڑھے بن جاتے ہیں۔

بھٹو کیس میںسپریم کورٹ کے مشاورتی دائرہ اختیار میں، میں نے بھی ایک درخواست دائر کی تھی کہ سندھ کے موٌقف کی پیروی کی جائے اور اسی طرح بلاول بھٹو نے بھی ایک درخواست دائر کی مگر یہ درخواستیں یہ کہہ کر واپس کردیں کہ بھٹو کیس سپریم کورٹ میں آرٹیکل 186 کے تحت سنا جارہا ہے اور اس کی سنوائیاں سپریم کورٹ کی Advisory Jurisdiction میں سنی جارہی ہیں، لہٰذا آپ کی درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔

 

 

چارٹر آف ڈیموکریسی میں بھی ایسا ہی لکھا ہے جس کو اس ملک کے دو بڑے لیڈروں نے سائن کیا ہے جس میں یہ تحریر کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور اپیلیٹ کورٹ کو الگ الگ کرکے سپریم کورٹ کے ججز چاروں صوبوں سے برابر لیے جائیں گے اور ایسا ہی سپریم کورٹ کی بار کے انتخابات میں بھی ہوتا ہے۔سپریم کورٹ بار کا صدارتی امیدوار چاروں صوبوں میں جو rotate ہوتا ہے۔

دنیا کی مہذب قوموں امریکا و برطانیہ نے اپنے آ ئین کے ذریعے miscarriage of justice کا دائرہ اختیار الگ وضع کیا ہوا ہے۔اب ضروری ہے کہ ہماری پارلیمنٹ بھی ایسے دائرہ اختیار واضح کرے جہاں فوجداری مقدموں میں ایسے فیصلے صادر کیے گئے جن میں  miscarriage of justice ہوا جہاں ججزنے مقدموں میں جان بوجھ کے اور مرضی کے غلط فیصلے صادر کیے اور ان فیصلوں کی بنیاد پر کڑی سزائیں دی گئیں یا پھر لوگوں کو سولی پر چڑھایا گیا، وہ مقدمے بھلے ہی پرانے ہو چکے ہوں مگر ان فیصلوں کو پہلے ایک کمیشن مرتب کرکے اس کمیشن میں بھیجا جائے جو ان مقدمات کے شواہدات کی دوبارہ تشخیص کریں اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ واقعی کسی مقدمے میں عدا لت کی طرف سے کوتاہی برتی گئی ہے یا پھر غلط سزا سنائی گئی ہے تو پھر اس مقدمے کو دوبارہ کھولا جائے پھر چاہے وہ مقدمہ سپریم کورٹ کا حرفِ آخر ہو۔

اسی طرح بھٹو کیس کے شواہدات کی دوبارہ تشخیص ہونی چاہیے۔فی الحال یہ ہوا ہے کہ بھٹو کو شفاف ٹرائل نہیں مل سکا اور بھٹو کو سزا دیتے وقت ان انسانی حقوق کو پامال کیا گیا جو آئین کے اندر وضع کیے گئے ہیں اور جس کی گارنٹی اس ملک کا آئین دیتا ہے پاکستان کے ہر شہری کے لیے۔ہاں مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دیر آید درست آید۔

بھٹو کیس پاکستان لیگل ڈائجسٹ PLD میں رپورٹڈ ہے ۔ اب وہاں سے بھٹو کیس خارج ہو جائے گا کیونکہ اب وہ  precedenceنہیں رہا جس کا حوالہ مقدموں میں دیا جا تا ہے ۔اس کیس کے کھلنے سے ایک چوالیس سال سے لگا ہوا داغ سپریم کورٹ کے ماتھے سے مدہم ہوا کیونکہ اعلیٰ عدلات نے اپنا احتساب خود کیا جو کہ ایک بہت بڑی جرات تھی۔آج پاکستان ٹوٹا نہیں بلکہ مضبوط ہوا ہے وفاق کمزور نہیں توانا ہوا ہے۔

اب ادارے اپنا احتساب خود کریں ان لوگوں کا جو ان اداروں کے اندر تھے اور انھوں نے اس ملک پر آمریت مسلط کی، مذہبی انتہا پرست کو ہوا دی،جمہوریت کو کمزور بنایا اور آئین کو یرغمال بنایا۔بھٹو کیس وفاق کے اندر دراڑیں ڈال رہا تھا۔میرے والد اس بات کو با خوبی جان گئے تھے حالانکہ نظریاتی طور پر وہ بھٹو کے سخت مخالف تھے مگر وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ جس طرح ججوں کی تقسیم ہوئی ہے، وہ اس ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔

میں نے اس بات کا تذکرہ پہلے بھی کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے فورا بعد چوالیس سال پہلے میرے والد نے جنرل ضیاء الحق کو ٹیلیگرام بھیجا کہ بھٹو کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ فیصلہ وفاق کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔وفاقی نظام چلانا آسان نہیں، اٹھارہویں ترمیم وفاق اور اس ملک کے نظام کو مضبوط بناتی ہے۔

بھٹو ایک عظیم لیڈر تھا۔سپریم کورٹ کو اس مقدمے میں صرف آئینی اور قانونی پیچیدگیاں دیکھنی تھیں اور وہ بھی آرٹیکل 186 کے محدود اسکوپ یعنی مشاورتی دائرہ اختیار میں۔ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک سازش کے تحت بھٹو صاحب کو سولی پر لٹکایا گیا۔ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کر کے۔ یہ ٹریجڈی شیکسپیئر کے ڈرامےMacbeth سے مماثلت رکھتی ہے۔

ایک آمر نے یہ کام لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج اور چار سپریم کورٹ کے ججوں سے لیا اور سپریم کورٹ کے ایک جج نے اپنی زندگی میں اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ جرم ان سے جنرل ضیاء الحق نے کرایا۔



انتخابات تاریخ کے تناظر میں

انتخابات تاریخ کے تناظر میں

اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ ہم انتخابات کی طرف جارہے ہیں۔ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کو 1970 کی دہائی میں ہونے والے انتخابات میں بالکل بھی اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان سے اس قدر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کریں گے۔ ان کی اطلاعات یہ تھیں کہ جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کی نشستوں میں کوئی انیس، بیس کا ہی فرق ہوگا۔

عوامی لیگ کے بعد جماعتِ اسلامی دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ضرور مگر انتخابات میں نشستیں حاصل نہ کرسکی۔ حالات کچھ اس طرح تبدیل ہوئے کہ عام انتخابات سے قبل شیخ مجیب نے مغربی پاکستان کا دورہ کیا تھا، وہ مشرقی پاکستان واپس گئے، اس دوران سمندری طوفان آیا جو بنگال کی تاریخ کا شاید بھیانک ترین طوفان تھا جس کی وجہ سے وہاں بڑے پیمانے پر تباہی آئی۔ ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے اور لا کھوں لوگ بے گھر ہوئے۔

عوامی لیگ نے بڑی ہوشیاری سے یہ بیانیہ پروان چڑھایا کہ جنرل یحییٰ کی آمریت نے بنگالیوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ عوامی لیگ کا یہ بیانیہ برق رفتاری سے پھیلا۔ شاید اس میں حقیقت کو زیادہ بڑھا دیا گیا تھا۔ شیخ مجیب پہلے اگرتلہ کیس میں سیاسی منظر پرابھر کر سامنے آئے ، پھر وہ بڑے لیڈرکے طور پر عوام میں مقبول ہوئے۔ اس تاریخی پسِ منظر کا ہمیں بغور جائزہ لینا چاہیے کہ سترکی دہائی میں انتخابات ہوئے، مگر مغربی پاکستان پر قابض یحیٰ خان آمریت نے اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل نہیں کیا ۔
اس سے پہلے کہ اس ڈورکو مزید الجھائیں، پاکستان کی سیاسی حالات کی طرف آتے ہیں۔کیا موجودہ انتخابات مزید ملتوی کیے جا سکتے ہیں؟ جی بالکل کیے تو جاسکتے ہیں مگر سپریم کورٹ کو آن بورڈ لیے بغیر اس مسئلے کا حل ممکن نہیں اور اگرکیے بھی جائیں تو انتہائی مختصر مدت کے لیے ہی کیے جاسکتے ہیں۔ صرف 2007 میں انتخابات کو ملتوی کیا گیا تھا وہ بھی مختصر عرصے کے لیے، کیونکہ الیکشن مہم کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوگئی تھی۔ اس وقت انتخابات کا ملتوی ہونا اتنا بڑا اپ سیٹ نہ تھا اور نہ ہی مشرقی یا مغربی پاکستان جیسا کوئی تضاد موجود ہے۔

1970 کے بعد پنجاب پہلی بار پنجاب بمقابلہ پنجاب تھا، ایک طرف جمہوری قوتیں نہیں جو آمرانہ طاقتوں سے نبرد آزما ہوں اور دوسری طرف آمرانہ سوچ کے حامل بااثر طبقے جن کی جڑیں بہت گہرائی تک پیوست تھیں اور جو افغان پالیسی کا تسلسل تھیں۔ اب ان کی سیاست کو کنٹرول کرنے کی طاقت کمزور ہوئی ہے، لہٰذا ایسا نظر آرہا ہے کہ میاں نوازشریف اس ملک کے نئے وزیر اعظم بننے جارہے ہیں۔

عمران خان کی سیاسی قیادت ملک کو تباہی کے دہانے تک لے آئی۔ یقینا ان کی پاپولر سپورٹ بھی تھی مگر اب یہ تیزی سے رول بیک ہورہی ہے، کیونکہ اسٹبلشمنٹ سے ٹکر لینے کا ان کے پاس کوئی حقیقی فلسفہ یا نظریہ موجود نہیں ہے۔

میاں صاحب بھی پنجاب سے ہیں، عمران خان بھی پنجاب سے ہیں لیکن دونوں کی ترجیحات، اہداف اور اسٹرٹیجی میں فرق آچکا ہے جب کہ اسٹبلشمنٹ پر فیڈریلسٹ سوچ کا غلبہ ہے۔

اس وقت اسٹبلشمنٹ کو یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت آسمان پر، نون لیگ پر بھی خوف ہے کہ پی ٹی آئی انتخابات میں کہیں سبقت نہ لے جائے، میرے حساب سے یہ سوچ غلط ہے۔

نگراں حکومت کے دور میں پاکستان کی معیشت سنبھل چکی ہے، اسٹاک ایکسچینج پچاس فیصد یا بیس ہزار پوائنٹ کی بلند ی پرگئی ہے۔ سیاسی استحکام بھی ہے ، پی ٹی آئی کی طرح غیر ذمے دار قیادت عام انتخابات میں جیت نہیں پائے گی۔

زمینی حقائق اس وقت یہ ہیں کہ پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی سیاسی پارٹی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ متصادم نہیں ہے، سیاسی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو بچانا انتہائی ضروری ہے، یہی ہدف اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہے۔ یہ تعمیرِ نو کا وقت ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اقتدار سے محرومی کے بعد اس کا کردار، پھر بعض قانونی فیصلے اس ملک کی تباہی کے ضامن تھے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی جارحیت کسی خانہ جنگی سے کم نہ تھی، بہت تباہی پھیلی۔ اب کھیل دہرایا نہیں جائے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں دو بڑے واقعات جو رونما ہوئے اور مثبت اثرات دیے ایک یہ کہ قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس بننا اور دوسرے یہ کہ چیف جسٹس کا خود بینچ بنانے کا اختیار کم ہونا، پھر جنرل عاصم منیر کا آنا۔

اس معاشرے اور جمہوری قوتوں کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ اس ملک کو اس ڈگر پر لے آئیں جس پر ایک صحت مند معاشرے اور ریاست کو چلنا چاہیے۔ اسٹبلشمنٹ ایک رات میں سیاست سے دست بردار نہیں ہو سکتی، ایسا ہونا ایک غیر فطری سی بات ہے اور ہماری جمہوری قوتیں جو شرفاء کلاس پر مبنی ہے جو خود الیکٹبلز ہیں، یہ قوتیں سیاسی بیانیہ پرکم ان الیکٹبلزکے پیسوں پر زیادہ کھڑی ہیں۔

ہماری اشرافیہ میں ٹاٹا اور برلا جیسے قانون پسند اور محب الوطنی کاروباری نہیں ہیں، جو طویل محنت کی تاریخ رکھتے ہیں، یہ اچانک امیر نہیں ہوئے، ان کی کاروباری ترقی نسل در نسل محنت کا نتیجہ ہے۔ ہماری شرافیہ بغیر محنت کے اور ریاستی وسائل ہڑپنے کے نتیجہ میں پروان چڑھی ہے، یہی جمہوریت کا لبادہ اوڑھے، جمہوریت کی دشمن کا کردار ادا کررہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے داعی اسٹبلشمنٹ کے اتحاد میں رہے ہیں۔

کراچی سے ایک مڈل کلاس سیاست کی بازگشت اٹھی تھی، پہلے وہ ہماری اسٹبلشمنٹ کی ٹیم تھی پھر وہ باہر کے لوگوں کے لیے کام کرنے لگی۔ پی ٹی آئی نے بھی اپنا تعارف ایک مڈل کلاس اور الیکٹبلز سے آزاد سیاسی جماعت کے طور پر کرایا تھا، لیکن دونوں اسٹیبلشمنٹ سے ہی اقتدار حاصل کرتی رہیں۔

میاں نواز شریف نے بھی یہ تہیہ کرلیا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینا ہے۔ ان کی پارٹی کے صدر بشیر میمن کو کوئی اور نہیں بس ملے تو تیغو خان تیغانی۔ میں اس پر تفصیلی بات نہیں کروں گا۔ ہماری بے نظیر صاحبہ کو بھی یہ خیال آیا تھا کہ اس علاقے میں بھاری اور قدآور شخص لایا جائے جو مہر قبیلے کی سیاسی بالادستی کا مقابلہ کرسکے۔ انھوں نے کسی اورکا نہیں بلکہ پیرآف بھر چونڈی عرف میاں مٹھوکا انتخاب کیا۔اس پر بھی کو ئی تفصیلی بحث نہیں۔سب کچھ لوگوں کے سامنے ہے۔

دراصل سیاسی جماعتوں کو ایسے ہی طاقتور لوگوں کی مدد چاہیے ہوتی جو الیکشن میں جیت سکے۔ یہاں ایسے شخص کے لیے انتخابات میں کوئی ووٹ نہیں ہے جن کے نظریات حیدر بخش جتوئی جیسے ہوں، نہرو جیسے ہوں یا پھر ولب بھائی پٹیل جیسے۔میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو بلوچستان میں بھی ایسے ہی لوگ ملیں گے۔ ہماری جمہوریت دراصل ہمارا ہی عکس ہے۔ جیسے ہم ہیں ویسے ہی ہماری جمہوریت ہے۔ معاشرہ عروج کے بجائے زوال کی طرف ہے اور نتیجہ کیا ہے معاشی بدحالی۔

شیئرٹویٹ



راسپوتین

راسپوتین

پسماندگی کی دلدل میں دھنسا ہے جناح کا پاکستان، پیری مریدی کے سلسلوں سے مغلوب پاکستان، بھوک و افلاس کی گردش میں غلطاں۔ کتنی نرالی ہے میرے ارضِ وطن کی کہانی ۔ فیض کی ان سطروں کی مانند۔

امیدِ یار نظر کا مزاج درد کا رنگ

تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے
ستم تو یہ ہے کہ سب ساتھ کھڑے ہوتے ہیں مفادات کے لیے، بھلے کتنے ہی مختلف بیانیہ رکھتے ہوں۔ ان کے پیروکار آمنے سامنے ہوتے ہیں، مگر ان کے رہبر رات کے لبادے میں ملتے تھے۔

جنرل کلاشنکوف کو یہ پتا نہ تھا کہ اس کی کلاشنکوف بیچنے والا قاتل بھی ہے اور مقتول بھی ہے۔ اس سے نکلنے والی گولی دوست بھی اور دشمن کی بھی۔ اس سے خود کشی بھی ہے اورگھنگھرو پاؤں میں ڈالے مست و الست کوئی رومی کی طرح نا چنے والا بھی۔ اس ملک میں نہ اب جناح ہے اور نہ رومی کا مست رقص۔ نہ گیارہ اگست کی تقریرکا وجود ہے۔ ان لوگوں کا کاروبارکیا تھا؟

لوگوں کے دیے ہوئے ٹیکسز پر ڈاکا مارنا، لوٹ کھسوٹ کے اس کاروبار میں جمہوری اقدار کو روندا گیا۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کمزور بنیادوں پر تھی، ارتقاء کی منازل طے کر رہی تھی اور آخر ایسا دن بھی آتا کہ وہ اپنے قدم جما لیتی۔ اس ہندوستان کی طرح جو 1947 تک ہمارا عکس تھا۔

رانگ نمبرز تو وہاں پر بھی ہیں، مذہب کا سیاست میں استعمال وہاں پر بھی کیا جاتا ہے۔ وہاں پر بھی پنڈت اور پجاری، ملا اور پادری ہیں، مہنت اور سادھو ہیں مگر وہاں جمہوریت چلتے چلتے مضبوط ہوگئی، جو پچھتر سالوں میں بھی ہمارے یہاں نہ ہوسکی۔ یہ اس کمزور جمہوریت کا عکس ہے جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔

کراچی جیل میں ایک قیدی تھا، وہ پیر بن گیا۔ جنرل مشرف کے دور میں یہ جیل یاترا بہت سے سیاستدانوں کو نصیب ہوئی اور وہ سیاستدان اس پیرکے مرید بن گئے، وہ پیر پہلے لکھ پتی تھا، لکھ پتی سے کروڑ پتی بن گیا، وہ پیر جو بینک میں غبن کے کیس میں سزا کاٹ رہا تھا۔

جب میں نے آنکھ کھولی میرے پاس کچھ نہ تھا۔ بس ایک شمع تھی دلیل سحر۔ ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں میری عمر بیس سال تھی، اس دور میں، میں دوستووسکی، گورکی، سبطِ حسن کی ’’ موسیٰ سے مارکس تک ‘‘ پڑھتا تھا۔ میرے ایک طرف بھٹائی، باہو اور فرید تھے اور دوسری طرف مشرق و مغرب کا فلسفہ تھا مگر رہتا زمینی حقائق میں تھا۔ میرے اپنے دہقان تھے اور ان کی تحریک تھی جو مجھے ورثے میں ملی تھی۔ یہ دہقان اپنے محسنوں کو جاننے کی سمجھ نہ رکھتے تھے، وہ سندھ کے پیروں اور وڈیروں کو اپنا محسن مانتے تھے۔

ان کا یہ اعتقاد ہے کہ پیر ان کی عاقبت سنواریں گے اور وڈیرہ ان کو تھانہ کچہری سے چھٹکارا دلائے گا، غلامی جڑوں تک بسی ہوئی تھی۔ ان کی چھتوں میں سریا نہیں اور کواڑوں میں قفل نہیں، بس ایک قبا تھی مفلسی کی جس پر غربت کے پیوند تھے۔ رلی انھیں غریبوں کے پرانے کپڑوں سے بنتی تھی، جسے وہ اوڑھتے اور چارپائیوں پر بچھاتے تھے اور اب یہ رلی امیروں کے ڈرائنگ روم کی شان ہے۔

میں نے ان دہقانوں اور ان کے بچوں کو وڈیروں کی حویلیوں میں نیچے فرش پر بیٹھتے دیکھا۔ سندھ کے ان دہقانوں کو میلے کچیلے، پیوند لگے کپڑوں کے ساتھ ان وڈیروں کی اوطاقوں پر چاکری کرتے دیکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو سندھ کے لیڈر بن کر ابھرے اور ان دہقانوں کے لیے روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔

فقیر محمد لاشاری مجھے کہتے تھے کہ’’ یہ حیدر بخش جتوئی اور میرے والد قاضی فیض محمدکی دہقان تحریک کا ثمر تھا کہ بھٹو صاحب نے سندھ کے دہقانوں کے لیے روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور ان کو ووٹ کا شعور دیا کہ ووٹ ان کا بنیادی حق ہے۔‘‘

ان حالات میں وڈیروں کے گروہ بن گئے، ایک گروہ آمریت کا انتظار کرنے لگا اور دوسرا گروہ الیکشن کے وقت اپنے حلقوں کے دہقانوں کے گھروں میں پیر پسار کے بیٹھ جاتے تھے، منت اور سماجت کرتے کہ ان کو ووٹ دیا جائے اور ان غریب دہقانوں کی محدود سوچ ان کو مجبور کردیتی تھی کہ ان کا وڈیرہ چل کر ان کے پاس آیا ہے۔

یہ کام اگر سیاسی پیروں اور خود کو سید کہلانے والوں سے نہ ہوتا تو وڈیروں سے کرایا جاتا تھا جو مذہبی اور روحانی تقدس کے لبادے میں قید نہ تھے، سندھ کا پیر طبقہ تو ہمیشہ آمریت پسند رہا ہے مگر سندھی وڈیرے اس ضمن میں بہرحال جمہوریت پرست رہے۔

آصف زرداری انھیں وڈیر شاہی کا ترجمان ہے۔ ان پچاس برسوں میں سماجی اور معاشی اعتبار سے توڑ پھوڑ ضرور ہوتی رہی لیکن جمود نہ ٹوٹا۔ کے پی کے میں خان نہ رہا، پنجاب میں چوہدری نہ رہے، بلوچستان میں سردار ٹوٹتا نظر آرہا ہے مگر سندھ میں وڈیرہ شاہی اور پیر شاہی آج بھی اقتدار اور سیاست پر قابض ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی ریاست مدینہ کی باتیں کرتے رہے، ہاتھ میں تسبیح لے کر گھومتے رہے، کبھی روحانیت توکبھی طالبانیت کے پیچھے چھوپتے نظر آئے، لندن سے بھی کمک ملتی رہی، جس طرح سندھ کے وڈیرے اقتدارکے لیے ہر حربہ استعمال کر سکتے ہیں، اسی طرح چیئرمین پی ٹی آئی بھی اقتدار کے لیے کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ جن سے پردہ اٹھایا ہے خاور مانیکا نے۔ مرے ہوئے کو اب کیا مارنا ! بات یہ ہے کہ خاور مانیکا اس وقت کیوں چپ رہے؟

میں شواہد کا شاگرد ہوں۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ خاور مانیکا کے گھر میں کچھ لوگ گھسے، اس گھر میں سازشیں رچائی گئیں،کچھ لوگ ان سازشوں کا حصہ بنے، ان سازشوں میں انتخابات کے دوران آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا، اقامہ پر فیصلے صادرکیے گئے ۔ کیا پیرنی کو بھی کسی’’ پیر‘‘کی سر پرستی حا صل تھی؟ اگر کوئی تھا تو اس ’’پیر ‘‘کے پیچھے کون تھا؟ یہ بات صرف جنرل فیض حمید صاحب کے علم میں تھی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی اصل طاقت لوگوں میں ان کی مقبولیت تھی پھر اس کے پیچھے بھی ایک سسٹم تھا پیری اور مریدی کا۔

سندھ میں ایک طرف گدی نشینوں کا راج ہے اور دوسری طرف ہے مہنگائی، بیروزگاری، بد امنی اور ڈاکو ہیں۔ کوئی جائے تو کہاں جائے۔ یہ ہے میرا پاکستان، جناح کا پاکستان، پچیس کروڑ عوام کی آزاد ریاست جہاں بھوک وافلاس کا ڈیرہ ہے۔

ایک مخصوص ٹولہ ہے جمہوریت کے اس طرف بھی ہے اور اِس طرف بھی۔ سیاسی، معاشی اور سماجی جمود ہے کہ ٹوٹتا نہیں ہے، وہ ہی شرفاء، وہ ہی استحصال، وہ ہی طریقہ پیداوار، ایسا مافیا جو حکومتیں گرا بھی سکتا ہے اور بنا بھی سکتا ہے۔ ہندوستان دنیا کی تیسری معاشی اور فوجی طاقت بننے جا رہا ہے اور ہم ابھی تک افغان پالیسی میں گھرے ہوئے ہیں۔

راسپوتین نے بھی روحانیت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، روس کی ملکہ اس کے سحر میں تھی اور زار روس نکولس اپنی ملکہ کے سحر میں تھا۔ پھر روس کہاں پہنچا، روس تھا تو یورپ میں مگر اس پر اثرات ایشیا کے تھے، دوسری یورپین ریاستوں کی طرح تیزی سے ریفارمز نہیں لا سکا۔ انگلینڈ، جرمنی اور فرانس وغیرہ کے شاہی خاندان بتدریج اپنے اختیارات پارلیمان کو دیتے گئے مگر روسی بادشاہ ’’ریاستی دوما ‘‘ کو اختیارات نہ دے سکے۔

خاور مانیکا نے جن رازوں سے اس وقت پردہ اٹھایا ہے، وہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ راسپوتنی محلاتی سازشیں کس طرح بنتی ہیں اور کیسے ریاست غربت اور انتشارکی دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے ۔



Article 184 (3)

Article 184 (3)

قصہ اس پری وش کا، جس کو ہمارے آئین میں آرٹیکل 184(3)کہتے ہیں اور اگر اس آرٹیکل کے اختیارات کو استعمال کریں تو سوموٹو، پھر اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں، اگر سو موٹوکا اختیار فردِ واحد کو دے دیا جائے تو پھر ہماری معیشت کا حال ایسا ہی ہوگا جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔

افتخار چوہدری نے اپنے دور میں جس طرح سے سو موٹو اختیارات کا استعمال کیا، اس کے نتائج سے بھی ہم خوب واقف ہیں۔ ریکوڈک میں چھ ارب ڈالر کا نقصان ان ہی اختیارات کے بے جا استعمال کا نتیجہ تھا۔ ہماری آرٹسٹ عتیقہ اوڈھو جناب افتخار چوہدری کے سوموٹو کا شکار ہوچکی ہیں۔

 

 

وکلاء تحریک کا آغاز اور انجام بھی تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ اسی وکلاء تحریک کی بنیادوں سے آئینی عدالتوں کے جج صاحبان کے سو موٹو لینے کی پالیسی بنی اور پارلیمنٹ کے کردارکو محدود کردیا گیا، یہ کہہ کر عدلیہ کی آزادی کا سوال ہے، جب پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے تحت فرد واحد یعنی چیف جسٹس کے بینچ بنانے کا اختیار آرٹیکل 184(3) میں اپیل کا حق اور سو موٹو کا حق دو سینئر ججز کی مشاورت سے جوڑا گیا تو یہ کہا گیا کہ اس سے عدلیہ کی آزادی مجروح ہوتی ہے۔

 

 

پارلیمنٹ کے اختیارات اورکردار کو نہ صرف اسٹیبلشمنٹ نے محدود کیا ہے بلکہ اس میں عدلیہ اور بالخصوص سپریم کورٹ کا بھی اہم کردار ہے۔ افتخار چوہدری کے بعد دو جج سپریم کورٹ کے چیف بنے مگر وہ بڑے ہی سادگی پسند تھے۔

 

 

تصدق حسین جیلانی نے آئین پاکستان آرٹیکل 20 کی تشریح کرتے ہوئے پاکستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنی عبادات اور رسم و رواج کو نبھانے میں یکساں آزادی کے حق کو دہرایا۔ آرٹیکل 20 کی تشریح دراصل قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریرکا تسلسل ہے۔ جہاں پاکستان میں رہنے والے تمام لوگوں کو اس بات کی مکمل آزادی ہے کہ وہ اپنے تمام رسم و رواج کو آزادی سے نبھائیں۔

ایک جوڈیشل کونسل کے اجلاس کی تصدق حسین جیلانی صدارت کر رہے تھے اور اس میں ایک جوڈیشل ترانہ منظور ہوا جو ان کی اپنی تحریر تھی اور وہ تحریر جو قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریرکا تسلسل تھی۔ اس جوڈیشل ترانے کو سپریم کورٹ کی ایک دیوار پر چسپاں کیا گیا۔ جناب اختر حسین صاحب نے یہ بات حاصل بزنجو اور غوث بخش بزنجوکی برسی کے موقع پرکی تھی۔

 

 

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور میں ، جناب تصدق حسین جیلانی نے اختر حسین سے فون پر رابطہ کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ اس جوڈیشل ترانے کو جو جوڈیشل کونسل سے منظور ہوا تھا سپریم کورٹ کی دیوار سے ہٹا دیا گیا ہے؟ اس بات کے بعد جناب اختر حسین جو کہ خود جوڈیشل کونسل کا حصہ ہیں، بندیال صاحب سے ملے بھی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ جوڈیشل کونسل سے منظور شدہ ترانے کو سپریم کورٹ سے بندیال صاحب نے بغیر کسی مشاورت کے ہٹایا بالکل اسی طرح جیسے قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کو ریڈیو پاکستان سے غائب کردیا گیا تھا۔

 

 

قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریرکو نواز شریف کے پچھلے دورِ حکومت میں بڑی ہمت کے ساتھ قومی اسمبلی میں سنائی گئی اور اس بات کا عزم بھی کیا گیا کہ قوم قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کے ساتھ کھڑی ہو گی اور اس تقریر کا حوالہ کیا ہے، وہ آپ آئین پاکستان کے آرٹیکل 20) (میں پڑھ سکتے ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 20  جناح کی گیارہ اگست کی تقریرکا عکاس ہے۔

ثاقب نثارکے دور سے سوموٹوکا کام پھر سے شروع ہوا۔ آرٹیکل 184(3)کے اختیارکا استعمال کرتے ہوئے وہ ہر ہفتے سوموٹو ایکشن لیتے۔ سپریم کورٹ کی واحد اوریجنل جیورسڈکشن سوموٹو ہے باقی تمام جیورسڈکشن اپیلٹ،ریویو یا ایڈوائزری ہے۔ پاکستان میں آرٹیکل 184(3)کی تاریخ ثاقب نثار کے دور سے نئے انداز سے شروع ہوئی۔ ماسوائے آصف سعید کھوسہ کے ، بندیال صاحب کے دور تک سوموٹو جیورسڈکشن کا تمام ججز نے بے دریغ استعمال کیا۔

آرٹیکل 184(3) کے اختیار کو بھی اسی طرح سے استعمال کیا جیسا کہ آرٹیکل   58(2)(b) کا استعمال کیا گیا سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے۔ آرٹیکل   58(2)(b) میں ایسا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کا صدر چاہتی تھی ، وہ صدر جو تاک میں بیٹھا ہوتا تھا کہ کب اشارہ ملے اور 58(2)(b)کا استعمال کیا جائے۔ 58(2)(b) بھی اقتدار پر نیم شبِ خون کو آئینی راستہ دیتی تھی۔ ارتقاء کے عمل سے گذرتے گذرتے بلآخر پارلیمنٹ اس قدر بالغ ہو چکی تھی کہ آئین کے اندر موجود شبِ خون یعنی 58(2)(b) کو ختم کرے۔

یا یوں کہیے کہ قانون کے فلسفے Jurisprudence کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ کم ازکم آرٹیکل 58(2)(b) اسٹیبلشمنٹ کے اختیارکو توازن میں رکھتا تھا۔ اس طرح نہ ہوتا اگر وہ آئین میں ہوتی تو ہائبرڈ جمہوریت متعارف نہ ہوتی اور پس پردہ ایسا آمرانہ ظہور پذیر ہوتا جو ملک کے پورے سسٹم کو ہلا دیتا، لوگوں کو بلیک میل کرنے کے لیے ان کی وڈیو بنائی جاتی اور بدنام کرنے کے لیے لیک کی جاتی۔ پھر توکالے دھندوں کی فیکٹریاں در فیکٹریاں لگائی جاتیں، منشیات کا کاروبار، زمینوں پر قبضے ہوتے۔

آرٹیکل 184(3)کے اختیارکو استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بن گئی اور اقامہ کے کیس کو منظرِ عام پر لا کر ایک مضبوط کیس بنا دیا۔ ہم نے اپنے جمہوری اقدار کو کمزور کردیا، پارلیمنٹ کو مفلوج کرنے کے لیے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے افغانستان کے جنگجو گروپوں کی قیادت کے ساتھ مل کر امریکا کی سرپرستی میں لڑی جانے والی افغان جنگ میں اور بعد میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ مال بنایالیکن افغانستان محدود سیا شہری انفرااسٹرکچر تباہ اور عوام کو برباد کردیا جب کہ پاکستان کے سسٹم میں بلیک اکانومی کا انجکشن لگا دیا،یوں پاکستان کا ادارہ جاتی ڈھانچہ اسمگلنگ،ڈرگ ٹریڈ، ناجائز اسلحہ کی تجارت کے وائرس کا شکار ہوا، جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔

اب ہم اپنی معیشت کے ہاتھوں کمزور ہیں، یہاں افراطِ زرکا تناسب اوسطاً پچیس فیصد ہے یعنی غریبوں کی آمدنی ہر سال پچیس فیصد کم ہوتی ہے۔ غریب کا بچہ جب آٹا چوری کرتا ہے، فٹ پاتھ پر بیٹھ کے پرانے کپڑے بیچتا ہے یا پھر سڑکوں پر بھیک پر بھیک مانگتا ہے ان کے خلاف قانون فوراً حرکت میں آجاتا ہے مگر جب یہی قانون جنرل مشرف کے شبِ خون مارنے پر حرکت میں آتا ہے تو پارلیمنٹ کو مفلوج کردیا جاتا ہے، اقامہ جیسے کیسز بنائے جاتے ہیں، جب فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے آتے ہیں تو عمل کے کام وہیں رک جاتے ہیں۔

نیا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔ فل بینچ کا بیٹھنا اس ملک میں ناممکن تھا، اب فل بینچ بیٹھنے لگی ہے۔ عدالتوں کی یہ تمام کارروائیاں براہ ِراست عوام الناس کو دکھانی چاہئیں جس کا بندوبست اب ہونے لگا ہے،کیونکہ یہ سماعتیں لوگوں کی امانت ہے اور عوام کا یہ حق ہے کہ ان کو آگاہی ہونی چاہیے۔ پاکستان اس وقت ایک انتہائی حساس دور سے گذر رہا ہے۔ جن اداروں کے ذریعے ذاتی مقاصد حاصل کیے گئے اب ان ہی اداروں کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے ان سابق سربراہوں کا احتساب کریں، اگر ایسا نہ ہوا تو پھر وہ ہی بچہ پکڑا جائے گا جس نے دکان سے آٹا چوری کیا تھا اور جن لوگوں نے بلین ڈالرز اس ملک سے پارکیے وہ محبِ وطن کہلائیں گے۔

شاہ بھٹائی کہتے ہیں کہ ’’ آھین آئون کن جے، پاسو تن م مٹ ‘‘ یعنی ’’ وہ جو میں اور میں کہتے رہتے ہیں، ان کے سائے سے بھی دور رہو۔‘‘ ایسی ہی بات ہمارے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل بینچ کورٹ میں کہی تھی، ایسے جملے ڈکشنریز میں ہونے چاہئیں۔اب تو انگریزی زبان میں بھی ’’ He‘‘ یا  ’’She ‘‘ یا پھر تیسری جنس کے فرق کو مٹانے کے لیے ایک ہی لفظ ارتقاء میں ہے وہ ہے ’’ It ‘‘ جو مذکر اور مؤنث کے فرق کو مٹا دیتا ہے۔

جاتے جاتے یہ بات بھی کہتا چلوں آرٹیکل   184(3) کی اصلیت بحال ہونی چاہیے اور آرٹیکل دو اور چار کے تقاضے بھی پورے ہونے چاہئیں۔

https://www.express.pk/story/2475818/268/

Passing off another’s goods as own unlawful


Passing off another’s goods as own unlawful

ISLAMABAD:The top court has held that it was unlawful for a trader to pass off his goods as those of another by using the same or confusingly similar mark, name, or get-up.
“As nobody has any right to represent his goods as the goods of somebody else, it is unlawful for a trader to pass off his goods as the goods of another by using the same or confusingly similar mark, name, or get-up,” a 13-page judgment authored by Justice Syed Mansoor Ali Shah read.

Justice Shah was hearing a matter regarding interpretation of the phrase ‘fraudulent use of another’s trademark, firm name, or product labelling or packaging’ as used in clause (d) of Section 10(2) of the Competition Act 2010 as well as clause (a) of Section 10(2)(a) of the same Act, which includes ‘distribution of false or misleading information that is capable of harming the business interests of another undertaking’ in the prohibited deceptive marketing practices.

The judgment observed that there was nothing in the language of Section 10(2)(d) of the Act that the meaning of the word “use” had been restricted therein to the use of the same trademark, firm name, or product labelling or packaging.

“We, therefore, hold that the word ‘use’ in Section 10(2)(d) of the Act includes the use of trademark, firm name, or product labelling or packaging which is confusingly similar (also referred to as deceptively similar) to that of another undertaking,” it added.

Briefly, the facts of the case are that K&N’s Foods (Pvt) Limited filed a complaint against A Rahim Foods (Pvt) Limited with the Competition Commission of Pakistan,.

K&N’s Foods claimed that Rahim Foods was involved in deceptive marketing practices in contravention of the provisions of Section 10 of the Act.

In the complaint, K&N’s Foods mainly alleged that Rahim Foods was copying its product labelling and packaging for the sale of its several frozen and processed meat products.

It also alleged Rahim Foods had copied its trademark term “Combo Wings” for one of the products, that was, the chicken wings.

Two officers of the commission conducted an inquiry into the matter.
After collecting and considering the respective evidence of the parties, the inquiry officers submitted their report to the commission, confirming the allegations and proposing the initiation of proceedings against Rahim Foods under Section 30 of the Act.

The judgment noted that Act aimed to address the situations that tend to lessen, distort or eliminate competition, such as (i) actions constituting an abuse of market dominance, (ii) competition restricting agreements, and (iii) deceptive marketing practices.

“Free and Fair competition is a fundamental concept in economics that involves providing a level playing field for all market participants,” it stated.
“It is based on the principles of a free market where businesses compete on equal terms, and consumers make decisions based on price, quality, and preference. Free and fair competition is competition that is based on quality, price, and service rather than unfair practices. Predatory pricing, competitor bashing, and the abuse of monopoly-type powers, for example, are unfair practices,” the judgment further read.

The court observed that when competitors could compete freely on a “level playing field”, economies were more likely to thrive.

“On the other hand, unfair competition is using illegal, deceptive, and fraudulent selling practices that harm consumers or other businesses to gain a competitive advantage in the market. However, free and fair competition is encouraged and enforced through legislation and regulation to promote economic efficiency, innovation, and consumer welfare,” it added.

The verdict read that violations of fair competition principles could lead to legal consequences, penalties, or other corrective measures.

“Competition is not only healthy for businesses, but pivotal for innovation. It sparks creativity and nurtures transformation and progress,” it continued.
The court noted that Article 18 of the Constitution provided that every citizen shall have the right to conduct any lawful trade or business.

It further observed that clause (b) of the proviso to Article 18 stated that nothing in this law would prevent the regulation of trade, commerce or industry in the interest of free competition.

“Therefore, regulation in the interest of free competition actualises the fundamental freedom guaranteed under the Constitution to conduct lawful trade and business. As free and fair competition ensures freedom of trade, commerce and industry and therefore forms an intrinsic part of the fundamental right to freedom of trade and business guaranteed under Article 18 of the Constitution. The preambular objective of the Act is to ensure ‘free competition’ in all spheres of commercial and economic activity to enhance economic efficiency and to protect consumers from ‘anti competitive behaviour’,” it read.

The SC noted that the term “free competition” envisaged by the Constitution and aimed to be ensured by the Act, therefore, meant a competition through fair means, not by any means.
“To ensure fair competition in trade and business, Section 10 of the Act has prohibited certain marketing practices by categorising them as deceptive marketing practices, and Sections 31, 37 and 38 of the Act have empowered the commission to take appropriate actions to prevent those practices. With this constitutional underpinning in the background, we now proceed to examine the meaning and scope of clauses (a) and (d) of Section 10(2) of the Act,” the judgment stated.

The court noted that the provisions of Section 10(2)(a) of the Act did not mention this requirement.
“Conversely, the ‘malice’ of the defendant [that] is not required to be proved in a common law action for passing-off, has been made relevant in the provisions of Section 10(2)(d) of the Act by using therein the expression ‘fraudulent use’. Goodwill, misrepresentation and damage are the three essential elements of a passing-off action under common law, which are usually referred to as its ‘classic trinity’, and the liability for passing-off under common law is not affected by the defendant’s state of mind,” it added.

The judgment observed that the expression “fraudulent use” in Section 10(2)(d) had made the intention of the defendant (user of another’s trademark, firm name, or product labelling or packaging) also relevant for holding them liable under the Act.

“However, as the Act has not defined the term ‘fraudulent’ and thus not given any particular meaning to it, the expression ‘fraudulent use’ in Section 10(2)(d) is to be understood in its ordinary sense of ‘intentional and dishonest use’ in contrast to a mere ‘mistaken or negligent’ use,” the verdict read.

The judgment noted that a trader might not sell their goods under false pretences, either by deceptively passing them off as the goods of another trader so as to take unfair advantage of his reputation in their goods, or by using a trade sign the same, or confusingly similar to, a registered trademark.

“The misrepresentation alleged in a passing-off action is therefore also judged on the same or confusingly similar standard as it is done in a trademark-infringement action. Further, the criterion to determine the confusing similarity (also referred to as deceptively similar), which is described hereinafter, is also common in both these actions,” it continued.

“K&N’s Foods, which may have been aggrieved of the decision of the tribunal on the point of non-applicability of the provisions of Section 10(2)(a) of the Act, has not impugned the decision of the tribunal by preferring an appeal to this court, and it is the commission that has challenged the decision of the tribunal on that point by filing the appeal,” the judgment read

The court observed that though the role of the commission under the Act was primarily of a regulatory body, it was quasi-judicial as well under some provisions of the Act.

“The provisions of clauses (a) and (d) of Section 10(2) of the Act, 24 in our view, envisage the quasi-judicial role of the commission while deciding upon the divergent claims and allegations of two competing undertakings. And, as held by this court in Wafaqi Mohtasib case, an adjudicatory body deciding a matter in exercise of its quasi-judicial powers between two rival parties under a law cannot be treated as an aggrieved person if its decision is set aside or modified by a higher forum under that law or by a court of competent jurisdiction and such [a] body thus does not have locus standi to challenge the decision of that higher forum or court,” it added.

“The appeal filed by the commission in the present case against the decision of the tribunal setting aside partially its quasi-judicial order is therefore not maintainable,” the judgment observed.

The court also rejected Rahim Foods’ petition in the matter.

Domestic Violence Stories and Repercussion of Laws


Domestic Violence Stories and Repercussion of Laws

What is domestic violence?

The definition of “torture” in the legal sense involves deliberate infliction of pain. According to human rights activists, domestic violence is of various types. If someone from a family, including husband, father, and brother, physically abuses a girl or a woman, it is deemed as domestic violence. If a husband doesn’t talk to his wife, doesn’t react, or keeps his wife deprived of her basic support or position, it is considered a form of violence. Under the Domestic Violence (Prevention and Protection) Act, 2009, men cannot physically torture women, children, and domestic employees.

In Pakistan many women protection laws have been introduced against Violence specifically to address the issue of domestic violence; under these laws and special women’s protection cells have been established in police stations Sindh as well as in Punjab. These laws of the State provided the strong shelter and veil to the women that a woman can’t be forced to leave the house where she is living; it is her right to continue to live there. If her husband forces her to leave the house, she can make an application to restrain him under the laws and if the husband is involved in violence, wife has the right to expel him from the house until the matter is resolved to both parties’ satisfaction.

Neelum, a resident of Rawalpindi, along with her child Zayan, is currently living at a private shelter home. Neelum and Zayan were shifted there due to a risk to their lives.

Domestic Violence Stories and Repercussion of Laws

Psychologists are of the opinion that children get affected by the environment in which they are brought up, and it leaves a life-long impact on their psychological wellbeing and personality.

In Pakistan, Zayan is not the only child in this plight. Sadly, there are hundreds of thousands of children like him who are exposed to various types of violence and abuse. Sometimes, their traumas lead them to violence later in their lives. Rawalpindi Division SSP (Investigation) Ghazanfar Ali Shah says that a large majority of offenders of such type of violence and abuse are themselves victims of similar traumas.

On average, in Pakistan, eight children were abused every day in one form or the other; 51 percent of the victims are girls and 49 percent boys. The report states that 2020, compared to the previous year, saw a four percent increase in child abuse cases.

Psychologists say that children who witness domestic violence are at a serious risk to long-term physical and mental health problems. Children who witness violence between parents may be at a greater risk of being violent in their future relationships. Mental health experts say that young children who experience spousal violence are prone to unsavoury habits such as thumb-sucking, increased crying, and whining.

According to Neelum, she was a victim of perpetual violence since her marriage to Irfan Hussain. Her husband started beating her just two weeks after their marriage, and after that, it become a routine affair. She was not even spared during her pregnancy, adding that it was a special blessing of the Almighty that she could survive her pregnancy. Violence didn’t end even after childbirth. It happened two weeks after her child’s delivery, causing rupturing of stitches, leading to months-long complication and pain. Her husband has issued threats against her in case she fails to return to him. She said that he even lit a fire outside her parents’ home as a warning of his intentions.

A team from the Saddar Bairuni police station, after receiving a call from a neighbour, rescued Neelum from her husband’s captivity. The neighbour said that Neelum was crying for help as she was being severely beaten; someone heard her cries and informed the local police. ASI Waqas, along with his team, raided the house and rescued her.

In the presence of her in-laws, her husband brutally beat her, injuring her nose and decreeing divorce thrice. When she tried to flee, he dragged her to the washroom and locked her there in her injured condition, according to Neelum. “When the police team raided, I was locked in the washroom. I was rescued and taken to the police station, but Irfan’s uncle was already there.”

Whether to call it lack of coordination between police, medical team and Dara-ul-Aman officials, lack of support behind the victim, or weak will of the officers concerned, Neelum’s medical check-up took more than two weeks, by which time her injuries, which can clearly be seen in a video and photos available to this correspondent, had been healed. The police team that rescued Neelum were also witness to her condition caused by physical torture. According to Neelum, the medical team didn’t examine the areas she highlighted. “I asked the medical officer at the Benazir Bhutto Shaheed Hospital that I have pain in my ribs and shoulders, but the team didn’t pay any attention.” As a result, the medical report didn’t establish a solid case against her husband Irfan.

However, the investigation officer Waqas, a witness of torture against Neelum, when contacted said that there is no law that allows police to interfere in a couple’s personal affairs. He said that it was a conflict between a husband and a wife, and police don’t interfere in such domestic matters, adding that despite that he rescued the girl on human grounds. It is to be noted that ASI Waqas was leading the police team that rescued Neelum from her former “husband’s custody” in her injured condition.

Regarding the delay in FIR, the investigation officer responded that the victim’s medical report is not strong enough to file a case against the offender. “If the victim has any fracture or a deep wound, a strong case could be registered against him,” ASI Waqas said in his telephonic interview with this correspondent.

The law is strong enough and gives protection to women against violence, but that is only possible if the law is implemented in its true letter and spirit. In our justice system, laws protect those victims who have strong financial or political backgrounds. In Neelum’s case, she neither has a strong political nor financial background.

Pakistan is overflowing in legislations. The thing that lacks is implementation, which seems to be impossible in the prevailing investigation and justice systems. The need is the True implementation of the domestic violence laws and needs a transparent system and merit-based unbiased police force as well as a responsive court system, but unfortunately, “Our country is very much in crisis in this regard.

Laws are strong or are, in fact, more supportive of women, but only for those with a strong backing. Neelum’s case is muddled. Despite the availability of proof of torture against her, the offender could not be brought to justice. Although police have registered a case now, delays in obtaining a medico legal certificate (MLC) have weakened her case.

Under the police rules the investigation officer is required to approach the hospital for an MLC of the victim within twenty-four hours of the incident. If any investigation officer commits a delay, and there is evidence of that, the department is required to take a strict action against that officer. But unfortunately most of the time, non-availability of a medical team at a hospital, particularly in rural areas, could cause a delay in the issuance of an MLC (Medico-Legal-Certificate)

Law concerning domestic violence is not an issue, but implementation is circumvented by outside influence and interference, poor execution of courts’ decisions, and lack of honesty, dedication and will of enforcers. There are thousands of women in our society who are forced to tolerate violence in their homes due to various push and pull factors.

And a huge lacuna in our society when the incident took place and when a case reported in a police station, many informal channels are activated to settle the dispute. In such situations police cannot stop interventions. Often, in cases in which a husband or in-laws commit violence or torture against a woman, even the elders or other family members of the victim get involved to advise reconciliation or a patch-up after reporting of the incident.

To control gender-based violence, the provincial governments have established special women compliant cells at district level. The In-charge Women Complaint Cells have stated that they have received many complaints that show an increased ratio of domestic violence in the district. But none of the complainants allowed them to take action against their partners or in-laws. Most of them [women] sought help to deter violence against them. When asked what reasons prompted that behaviour, they said that women’s financial dependence on their husbands is the leading factor that bars them to go against the offender, “Growing inflation has further aggravated women’s vulnerability against domestic violence. Most of the complainants when suggested a separate life instead of bearing everyday mental and physical torture say that they have nowhere to go with their children as they don’t have any alternative support. Financial dependence and other societal pressures force women to bear violence.

Article 14 of the Constitution of Pakistan provides for prohibiting torture for purposes of extraction of evidence that although Pakistan had ratified the UN Convention Against Torture six years ago, the legislation has not been actualized.

There is an urgent need for federal and provincial governments to make the prevention of violence against women and children one of their topmost priorities with clear directions and resources. All legislation, rules and directives related to this subject need to be identified and pulled together for an overall review, updating and implementation.

In countries where law enforcing agencies take violence against women and children extremely seriously have a starting point: victim’s complaint is taken as a matter of fact and investigation is initiated accordingly. The onus of the proof is shifted to the perpetrator. This is also the case for complaints involving violence, abuse, sexual harassment, and rape.

In societies where violence against women and children is treated as a major crime, specialist units are set up to support victims with the authorities working closely with third sector stakeholders. Arrangements are put in place for regular briefings, consultations, joint trainings, reviews and updating of legislation, protocols and rules.

In Pakistan, the legislation framework exists and can be improved, but it is implementation, lack of coordination, lack of resources and investment, gender biases in a patriarchal setup where women are generally treated as second class citizens, and political and community influences that combine to circumvent women and children from getting justice—their basic human right. As society we may have travelled a lot, but we still have a very long way to go when it comes to rights of women and children.



Article 184

پاکستان کی مخصوص صورتحال میں عدالتوں کے اس گرتے معیار کے پس منظر پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئین سپریم نہیں بلکہ پارلیمنٹ سپریم ہے کیونکہ عدلیہ کو آئین لکھنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا، جس طرح آئین کی تشریح کرنے کے بہانے آرٹیکل 63A کے ساتھ کیا گیا ہے اور کورٹ آئین کو سپریم قرار دے کر اپنے تشریح کے پاور سے پارلیمنٹ کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اور کرسکتی ہے جب تک ادارے مضبوط نہیں ہوتے تب تک پارلیمنٹ سپریم ہے، جب ان کورٹوں میں جسٹس دراب پٹیل جیسے جج صاحبان ہوں گے ،اس وقت پارلیمنٹ نہیں، آئین سپریم ہو گا۔

https://www.express.pk/story/2475818/268/




Are You Having Any Problems But Can’t Consult To Anyone?

Talk to us! We promise we can help you! Call Now! 0300 8220365